نور والوں کا ڈیرہ پاک: دھرمپورہ، لاھور

نور والوں کا ڈیرہ پاک: دھرمپورہ، لاھور (۱)

ڈاکٹرآفاق احمد قریشی۔ لاہور

میں سال دوئم کا طالب علم تھا اور ہم محمد نگر کی حسن منزل میں رہتے تھے- ان دنوں ابا جی (پروفیسر مشتاق احمد قریشی) گورنمنٹ کالج باغبانپورہ میں صدر شعبہ تاریخ تھے۔

اباجی کالج سے گھر آ کر ہم بھائیوں کے ساتھ دوپہر کا کھانا کھاتے اور کچھ وقت کے لئے ‘ٹھونکا’ لگاتے- یہ انکا معمول تھا جس سے وہ کبھی انحراف نہیں کرتے تھے- وہ خود کہا کرتے تھے کہ یہ ‘ٹھونکا’ یا قیلولہ انکی سلامتی اور صحت کا ضامن ہے- ایک روز میرا کالج میں زولوجی کا پراکتیکل تھا اور واپس اتے اتے دوپہر کے تین بج گئے- میں تیز سائیکل چلا کر گھر آیا کیوں کہ سخت بھوک لگ رہی تھی- سیڑھیاں چڑھ کر ابا جی کے پلنگ کی طرف گیا کہ انہیں کہوں کہ چلیں کھانا کھا لیں- لیکن وہاں دیکھتا ہوں تو وہاں ابا جی کے ساتھ ایک اور صاحب براجمان ہیں. میرے بڑھتے ہوے قدم وہیں رک گئے- مجھے دیکھ کر ابا جی مسکراے اور اشارہ کرتے ہوے بولے “آ جا یار تجھے علی محمّد سے ملوانا ہے”۔ اب میں دل ہی دل میں سوچ رہا تھا کہ ابا جی کو اچھا بھلا پتا ہے کہ مجھے نئے لوگوں سے ملنا پسند نہیں اور یہ ہیں کہ ایک نئے بندے کو پلنگ پر ساتھ بٹھا کر مزے سے دونوں سگریٹ کے کش لگا رہے ہیں۔ میرے لئے کوئی اور چارہ تو تھا نہیں اسلئے بڑی آہستگی سے آگے بڑھا تاکہ اباجی کی پائنتی پر بیٹھ جاؤں۔ اتنے میں وہ علی محمد صاحب سرعت سے اٹھے اور آگے بڑھ کر مجھے گلے لگا لیا۔ انکے جسم سے ایک مسحور کن خوشبو آرہی تھی جس نے مجھے بے حد متاثر کیا۔ وہ میرا ہاتھ پکڑ کر اپنے ساتھ لے گئے اور خود پائنتی بیٹھ کر مجھے ابا جی کے ساتھ بٹھا دیا۔

“لو جی قریشی صاحب یہ تو کرم ہو گیا کہ آفاق صاحب بھی تشریف لے آئے” ان صاحب نے مسکراتے ہوئے بلند آہنگ میں کہا۔ میں سوچ میں پڑ گیا کہ میرا ملنا کرم کب سے ہونے لگا۔ علی محمد اتنی بے ساختگی سے بول رہا تھا کہ مجھے لگا ہم ایک نور کے ہالے میں سانس لے رہے ہیں۔ وہ تو ابا جی نے بعد میں بتایا کہ علی محمد صاحب ایک بہت بڑے بزرگان دین کے صاحبزادے ہیں اور قریب ہی دھرمپورے میں نور والوں کے ڈیرے پر رہتے ہیں۔ مجھے طیش آ گیا کہ ابا جی اتنے قابل اور پڑھے لکھے ہو کر بھی اس پیری مریدی کے چکر میں پڑ گئے ہیں۔ جب پوچھا تو بتایا کہ ڈیرہ پاک والے بابا جی کوئی روائتی پیری مریدی کے تو قائل ہی نہیں ہیں۔ وہ تو بس ہر آنے جانے والے کی تکریم کرتے ہیں، کھانا کھلاتے ہیں اور دعا دیتے ہیں۔ اب میرا تجسس اسمان سے باتیں کرنے لگا۔ یا اللہ یہ کون لوگ ہیں جو تیرے بندوں کو کھانا کھلا کر خوش ہو جاتے ہیں۔

امی نے اس روز میرا پسندیدہ بھنڈی گوشت پکایا ہوا تھا۔ ہم تینوں نے باورچی خانے میں بیٹھ کر گرم گرم پھلکوں کے ساتھ کھایا اور نمکین لسی پی۔ نیند کی شدت سے میری آنکھیں بند ہو رہی تھیں اور جمائیاں آ رہی تھیں۔ مجھے پتا تھا اب اباجی کے بھی ٹھونکے کا وقت ہے۔ علی محمد امی سے باتیں کر رہا تھا۔ ابا جی اٹھے تو ساتھ ہی وہ بھی کھڑا ہوگیا۔ “ اچھا امی جی مینوں اجازت! اج شام نوں تسی وی قریشی صاحب نال ڈیرہ پاک تے تشریف لیاؤ نا! آفاق صاحب وی آ جاون تے بڑی برکت والی گل اے۔ تہاڈے لئی خاص حلیم تیارہوئے گی تے نالے گڑ والے چاول”۔ وہ تو چلا گیا لیکن میں سوچنے لگا یہ میرا جانا کسی کے لئے باعث برکت کب سے ہونے لگا۔

میں اباجی کے ساتھ پہلی مرتبہ ڈیرہ پاک گیا تو بے شمار وساوس میں گھرا ہوا تھا۔ “اگر باباجی نے نماز کے بارے میں پوچھ لیا تو کیا جواب دوں گا” وغیرہ وغیرہ۔ وہاں پہنچے تو ایک کھلا سا احاطہ تھا اور چند پختہ کمرے بنے ہوئے تھے۔ دروازے پر نہ کوئی دربان اور نہ کوئی چلتے پھرتے خدام۔ نہ وہ خونخوار کتے جو اکثر پیروں کے ہمسفر ہوتے ہیں۔ دروازے سے سارا ڈیرہ نظر آ رہا تھا۔ بالکل سامنے ایک لمبی سی نیچی میز تھی جسکے بائیں طرف لوگ کھنا کھانے میں مصروف تھے۔ سامنے بڑے سے چولہے پر بابا جی خود ہر آنے والے کو سالن ڈال کر دے رہے تھے۔ اباجی نے اشارے سے بتایا کہ یہی علی محمد صاحب کے والد گرامی بابا فضل شاہ نور والے ہیں اور انکے عقیدت مندوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ جو لوگ باگ ادھر ادھر پھر رہے تھے ان میں سے اکثر باریش تھے۔ ابھی میں اسی جائزے میں مصروف تھا کہ باباجی اٹھ کھڑے ہوئے اور بآواز بلند گویا ہوئے “نور والے، نور والے، اوہ آ گئی اللہ دی رحمت، اوہ رحمتاں ہو گئیاں، نور والے نور والے آ جاؤ لنگھ آؤ سالن وی گرم اے تے بابا جلال گرم گرم روٹیاں وی لاندا پیا اے”۔ میں دنگ رہ گیا اور دماغ میں خیال آیا کہ یہ کس قسم کے پیر صاحب ہیں جو عام لوگوں میں گھل مل کر رہتے ہیں۔ وہ باریش تھے اور وہ گھنی داڑھی ان کے چہرے پر بہت جچ رہی تھی۔ سر پہ ایک ادھوری سی پگڑی، ایک عام سے معمولی کپڑے کا سلوٹوں بھرا جبہ، نچلے دھڑ پر ایک تہمبند، چہرے پہ ایک زیر لب ملکوتی مسکراہٹ- نہ کوئی اکڑی ہوئی گردن، نہ وہ غرور سے بھرے ہوئے جبہ و دستار، نہ عام لوگوں کو قابل نفرین سمجھنے والا رویہ، نہ کوئی پیروں کو بوسہ دینے کا سلسلہ، وہ تو سراپا پیار اور سراپا محبت اور نرم لہجے کے مالک نکلے۔ روایتی پیروں کے بارے میں میرے سارے خیالات کی نفی چند سیکنڈ میں ہو گئی۔ جن مہمانوں کو وہ نور والے نور والے کہہ کر پکار رہے تھے وہ پانچ چھ مزدور اور خاکروب تھے جو اس علاقے کی ایک عمارت میں تعمیراتی کام کر رہے تھے۔ میں دم بخود کہ یہ اتنے بڑے بزرگان دین اورعام انسانوں کو اسقدر عزت دیتے ہیں، انکی عزت نفس کو بڑھ کر سنبھال لیتے ہیں، اسُ میں اضافہ کر دیتے ہیں۔ یا اللہ یہ کون سا علم ہے؟ یہ کون سا مذہب ہے؟ یہ علم ہمارے ہاں تو کوئی نہیں سیکھتا اور سکھاتا۔ تو یہ تھے بابا جی فضل شاہ نور والے اور یہ میرا ان سے پہلا تعارف تھا۔

ڈھلتی گرمیوں کی وہ ملگجی شام اس روز رگ وہے اور دل و دماغ کے نہاں خانوں میں اسطرح پیوست ہو گئی کہ باقی کی زندگی بابا جی کی تعلیمات اور حسن سلوک کے نور کو اہنانے میں صرف ہو گئی اور مجھے اس پر ناز ہے۔

ان ہی ایام میں میں مادکسزم کو بھی اپنا چکا تھا اور مغربی فلاسفروں سے بے حد متاثر تھا۔ دھیان ہر وقت والٹئیر، روسو، عمانوئل کانٹ، سپنوزا، شوپنہار، ہیگل اور نطشے وغیرہ کے اقوال و خیالات میں مصروف رہتا تھا۔ اعلی تعلیمیافتہ اور تنگ ظری سے کوسوں دور والدین کا یہ سب سے بڑا تحفہ ہوتا ہے جو وہ اپنے بچوں کی بالغ نظری میں حائل نہیں ہوتے۔ علی محمد صاحب ہمیں لے کر لنگر کے پاس چلے گئے اور وہاں بچھی ہوئی ایک چارپائی پہ تشریف رکھنے کو کہا۔ چارپائی پر ایک اجلی چادر بھی بچھی ہوئی تھی۔ میں نے ہلکا سا احتجاج کیا کہ ہم لوگ بھی وہیں لنگر پر بیٹھ جاتے ہیں لیکن علی محمد نے اصرار کر کے ہمیں وہاں بٹھایا اور پلک جھپکتے ٹھنڈے پانی کا ایک صاف ستھرا جگ اور دھاتی گلاس لے آیا۔ خدمتگاروں کی طرح ایک جانب کھڑا ہو کر ہمیں پانی پلایا اور کہا “لنگر ھنے ای تناول کرو گے یا پہلاں چاء پیش کراں”۔ پھر کہنے لگا “تسی بوٹ لاہ کے آرام نال منجی تے بیٹھ جاؤ”۔ ہم دونوں چوکڑی مار کے چارپائی پر براجمان ہو گئے۔ اتنی دیر میں ایک اور صاحب آئے اور وہ بھی چارپائی کی دوسری جانب بیٹھ گئے۔ علی محمد صاحب بھاگ بھاگ کر ہر کام کر رہے تھے۔ تھوڑی دیر بعد وہ بسکٹوں کی ایک پلیٹ اور چائے کے برتن لے آئے اور وہ سب سلیقے سے ہمارے سامنے پڑی میز پر رکھ دیا۔ اسکے بعد جو ہوا وہ میری سمجھ، عقل، علم، فلسفے سے بالا کا ایک عمل تھا جو میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ علی محمد جھکا اور ہمارے جوتوں کو جھاڑ کر سیدھا رکھ دیا۔ میں نے تو سنا تھا پیروں کی اولاد شدید تکبر اور فرعونیت کا شکار ہوتی ہے اور یہاں یہ صاحبزادہ صاحب ہم دنیا داروں کے جوتے سیدھے کر رہے تھے۔ جتنا عرصہ ہم وہاں بیٹھے علی محمد صاحب پھرکی کی طرح گھومتے ہی رہے۔ کسی کی کوئی ضرورت نظر آتی اور یہ وہاں پہنچ جاتے۔ پانی دے رہے ہیں، چائے پلا رہے ہیں، گرم گرم روٹی مہیا کر رہے ہیں اور وہ بھی اسطرح کے کسی کے کھانے کا تسلسل نہ ٹوٹنے پائے۔ میں نے ابا جی سے پوچھا یہ بابا جی کے سگے بیٹے ہیں؟ “بالکل ہیں”، انکا جواب ملا۔ بعد میں تفصیل یہ پتا چلی کہ باباجی کی ساری تربیت عجز و انکساری پر مبنی ہوتی ہے۔ پھر مجھے بتایا گیا کہ انکے سب سے بڑے بھائی رضا حسین ہیں جو ڈیرہ پاک ہی کے ایک حصے میں مقیم ہیں اور انکے اپنے بیوی بچے بھی انکے ساتھ رہتے ہیں۔ ان سے چھوٹے مقبول الہی صاحب ہیں جو ماموں کانجن میں رہتے ہیں، ان سے چھوٹے فدا الہی اور سب سے چھوٹے ڈاکٹر علی محمد صاحب جو اب ماشا اللہ ڈیرہ پاک کے مدار المہام بھی ہیں اور سجادہ نشین بھی۔ انداز وہی باباجی والا۔ ہر آنے والے کی تکریم کرنا، کھانا کھلانا اور اسکی حاجت روائی کرنا تو گویا ڈاکٹر علی محمد صاحب کو ورثے میں ملا ہے۔

جن ایام کی میں بات کر رہا ہوں، علی محمد صاحب انہی ایام میں چھ برس کے لئے ترکی چلے گئے اور ماشا اللہ ڈاکٹر بن کر لوٹے۔ میں کچھ عرصہ قبل ڈاکٹر بن چکا تھا اور میو ہسپتال میں ہاؤس جاب کر رہا تھا۔ ڈیرہ پاک میرے لئے دوسرے گھر کی حیثیت اختیار کر چکا تھا۔ بابا جی مجھے بہت پیار کرتے تھے۔ میں ناسمجھی میں الٹے سیدھے سوال بھی کر لیتا تھا لیکن انہوں نے کبھی برا نہ منایا۔ ایک ہلکی سی مسکراہٹ ان کے لبوں پر رقصاں رہتی تھی۔ انہی ایام میں ایک بڑے رئیس اور انکی بیگم ڈیرہ پاک پر آئے۔ میں لنگر پر بیٹھا گرم گرم چائے سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔ بابا جی اچانک اٹھے اور ان لوگوں کو چارپائی پر بٹھا کر سامنے والی چارپائی پر بیٹھ گئے۔ ذرا غور کیا تو پتا چلا کہ خاتون کی گود میں ایک نومولود تھا اور وہ سسکیاں بھر رہی تھی۔ اسکے شوہر کی آنکھیں بھی پر نم تھیں۔ میں نے سوچا باباجی کو کیسے پتا چلا کہ بے حد دکھی والدین ہیں، اور انہوں نے اشارے سے ہی انہیں چارپائی پر بیٹھنے کو کہا۔ پتا یہ چلا کہ وہ نومولد انکا پہلا بچہ ہے جو بڑی تاخیر سے پیدا ہوا ہے۔ اسے چند روز بخار آیا تو والدین نے بھاگ دوڑ شروع کر دی۔ اسکے دماغ میں کینسر تھا۔ لاہور اور کراچی کے معروف ترین معالجین نے اس کا معائنہ کر کے اپنا فیصلہ دیا کہ یہ بچہ تین چار ماہ سے زیادہ زندہ نہیں رہ سکتا۔ وہ صحب حیثیت تھے، فوراً بچے کو برطانیہ لے گئے۔ وہاں دو تین ہفتے ضائع ہی ہوئے کیونکہ وہاں کے ماہرین نے اس امر کی تصدیق کی کہ اس کی زندگی چند ماہ سے زیادہ نہیں ہے۔ باباجی انکی سب باتیں مکمل یکسوئی اور توجہ سے سنتے رہے۔ جب وہ خاموش ہو گئے تو باباجی گویا ہوئے “ پت اللہ خیر کرے گا۔ (ان کا تعلق جالندھر سے تھا اور نہایت میٹھا لہجہ تھا، پتر کو وہ پت کہتے تھے)۔ اسیں وی دعا کراں گے تسی وی دعا کرو۔ البتہ کاکے دا نام بدل دیو”۔ انہوں نے کوئی نام بتایا اور اصرار کر کے دونوں میاں بیوی کو لنگر کھلایا اور بچی کے سر پر ہاتھ رکھ کر انہیں خدا حافظ کہا۔ اب میں سوچ میں گرفتار کہ بھلا نام بدلنے سے اتنے خوفناک مرض کا علاج کیسے ممکن ہے۔

جاری ہے

(باقی آئندہ قسط میں)۔

Published by Dr. Afaq Ahmad Qureshi

Physician, writer, broadcaster, journalist, translator, free lance writer, poet, political and social analyst and critic. Writes plays and features for electronic media, interested in numerous things from sociology to medicine to history and art. interest in books and internet, writes for http://www.blogcritic.com also; editor for an internet journal; at http://twitter.com/dr_afaqaq.

Leave a comment

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

My Notes: Dr. Afaq Ahmad Qureshi

Its about Pakistan, the world, the people, cultures, and books.

Katherine Speaks

Praising My Creator!

datta3

Blog about Cartoon and Design

Composing Dreams

Creativity is intelligence having fun. -Albert Einstein

A CUP OF COFFEE WITH YOUR CREATOR

WORDS TO ENCOURAGE YOU DAILY....TO ENCOUNTER LIFE WITH A NEW PERSPECTIVE